Add To collaction

28-Dec-2021 حضرت موسیٰ علیہ السلام

حضرت موسیٰ علیہ السلام

قسط_نمبر_10
دسواں_حصہ
◆فرعون پر اتمام حجت:
موسیٰ علیہ السلام نے فرعون کو کئی دلائل سے دعوت دی مگر اس کافر نے سب کا انکار کر کے آپ کو جادوگر قرار دیا۔
ارشاد باری تعالی ہے:
فرعون نے پوچھا: اے موسیٰ ! تم دونوں کا رب کون ہے؟ جواب دیا کہ ہمارا رب وہ ہے جس نے ہر چیز کو اس کی خاص شکل وصورت عطا فرمائی پھر راہ سجھا دی۔ اس نے کہا: (اچھا یہ تو بتاؤ!) اگلے زمانے والوں کا کیا حال ہونا ہے؟ جواب دیا کہ ان کا علم میرے رب کے ہاں کتاب میں موجود ہے ۔ میرا رب نہ تو غلطی کرتا ہے نہ بھولتا ہے ۔ اس نے تمہارے لیے زمین کو فرش بنایا ہے اور اس میں تمہارے چلنے کے لیے راستے بناۓ ہیں اور آسمان سے پانی بھی وہی برساتا ہے۔ پھر اسی برسات کی وجہ سے مختلف قسم کی پیداوار بھی ہم ( اللہ ) ہی پیدا کرتے ہیں ۔تم خود بھی کھاؤ اور اپنے چوپایوں کو بھی چراؤ!، کچھ شک نہیں کہ اس میں عقل مندوں کے لیے بہت سی نشانیاں ہیں ۔اسی ( زمین) سے ہم نے تمہیں پیدا کیا اور اس میں پھر واپس لوٹائیں گے اور اسی سے دوبارہ تم سب کو نکال کھڑا کریں گے ۔‘‘ (طہ: 49/20-55) اللہ تعالی فرعون کے بارے میں بیان فرماتا ہے کہ اس نے خالق کا انکار کر تے ہوۓ کہا: ’’اے موسیٰ ! تم دونوں کا رب کون ہے؟‘‘ موسیٰ علیہ السلام جواب دیا: ’’ ہمارا رب وہ ہے ، جس نے ہر چیز کو اس کی خاص شکل وصورت عطا فرمائی پھر راہ سمجھا دی ۔ یعنی وہی ہے جس نے مخلوقات کو پیدا فرمایا، ان کے اعمال، رزق اور عمر کا فیصلہ فرمایا اور یہ سب کچھ لوح محفوظ میں درج کر لیا۔ پھر ہر مخلوق کو وہ راستہ سمجھایا جس کے لیے اسے پیدا کیا تھا چنانچہ اس کے اعمال اس انداز سے ظاہر ہوۓ جو اللہ کی تقدیر اور اس کے علم کے مطابق تھا اور یہ اس کے علم کے کامل ہونے کی دلیل ہے ۔ اسی مفہوم میں اللہ تعالی کا یہ ارشاد ہے:
 "اپنے بلند مرتبہ مالک کے نام کی پاکیزگی بیان کر جس نے پیدا کیا اور صیح سالم بنایا اور جس نے ( ٹھیک ٹھیک ) اندازہ کیا اور پھر راہ دکھائی ۔‘‘ (الأعلى: 1/87-3)
اس نے کہا: ’’اگلے زمانے والوں کا کیا حال ہے؟‘‘ یعنی فرعون نے موسیٰ علیہ السلام سے کہا: اگر تیرا رب ہی پیدا کر نے والا ، تقدیر بنانے والا اور اس کے مطابق لوگوں کو راہ سمجھانے والا ہے اور اس کی یہ شان ہے کہ اس کے سوا کوئی عبادت کا مستحق نہیں ، پھر سابقہ دور کے لوگوں نے غیر اللہ کی پوجا کیوں کی؟ اور اس کے ساتھ ستاروں اور باطل معبودوں کو کیوں شریک کر تے رہے؟ گزشتہ زمانوں کے لوگوں کو اس بات کی سمجھ کیوں نہ آئی جو تو ہمیں بتارہا ہے؟ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جواب دیا: "ان کا علم میرے رب کے پاس کتاب میں موجود ہے ۔ میرا رب نہ تو غلطی کرتا ہے نہ بھولتا ہے۔ یعنی اگر ان لوگوں نے اللہ تعالی کو چھوڑ کر دوسروں کی پوجا کی ہے، تو یہ بات تیرے حق میں دلیل نہیں بنتی اور نہ اس سے میری بات غلط ثابت ہوتی ہے کیونکہ وہ لوگ بھی تیری طرح جاہل تھے۔ ان کے تمام چھوٹے بڑے اعمال ان کے ریکارڈ میں درج ہیں میرا رب ان کا صحیح بدلہ دے گا۔ وہ کسی پر ذرہ برابر بھی ظلم نہیں کرے گا کیونکہ بندوں کے تمام اعمال اس کے پاس کتاب میں لکھے ہوۓ موجود ہیں ۔ میرارب ان میں سے کوئی چیز نہیں بھولتا ، نہ غلطی کرتا ہے ۔
 اس کے بعد آپ نے اللہ کی عظمت بیان فرمائی کہ وہ تمام اشیاء پیدا کرنے پر قادر ہے ۔ اس نے زمین کو بچھونا اور آسمان کو محفوظ چھت بنایا ہے ۔ انسانوں ،مویشیوں اور دوسرے جانوروں کے رزق کے لیے بادلوں اور بارشوں کو مسخر کر رکھا ہے۔ وہ فرماتا ہے: ’’تم خود بھی کھاؤ اور اپنے چوپایوں کو بھی چراؤ ۔ اس میں عقل مندوں کے لیے یقیناً نشانیاں موجود ہیں ۔‘‘ جو عقل سلیم اور فطرت سلیم کے مالک ہیں، وہ سمجھ لیتے ہیں کہ اللہ ہی رازق ہے۔ جیسے ارشاد ہے:
"اے لوگو! اپنے اس رب کی عبادت کرو جس نے تمہیں اور تم سے پہلے لوگوں کو پیدا کیا یہی تمہارا بچاؤ ہے، جس نے تمہارے لیے زمین کو فرش اور آسمان کو چھت بنایا اور آسمان سے پانی اتار کر اس سے پھل پیدا کر کے تمہیں روزی دی ۔ ( خبر دار! ) جاننے کے باوجود اللہ کے شریک مقرر نہ کرو‘(البقرة : 21/2'22)
 جب یہ ذکر ہوا کہ بارش سے زمین زندہ ہو جاتی ہے اور اس کی نباتات اگ کر لہلہانے لگتی ہے ، تب اس سے آخرت کی طرف توجہ دلاتے ہوۓ فرمایا: "اسی (زمین) سے ہم نے تمہیں پیدا کیا ، اس میں لوٹائیں گے اور اس میں سے دوبارہ تم سب کو نکال کھڑا کر یں گے ۔‘‘ جیسے دوسرے مقام پر فرمایا: 
’’تم کواللہ نے جس طرح شروع میں پیدا کیا تھا، اسی طرح تم دوبارہ پیدا ہو گے ۔‘‘ (الأعراف :29/7)
 اور فرمایا: 
- وہی ہے جو پہلی بار مخلوق کو پیدا کرتا ہے پھر دوبارہ پیدا کرے گا اور یہ تو اس پر بہت ہی آسان ہے ۔ اور آسانوں اور ز مین میں اس کی شان بہت بلند ہے اور وہ غالب حکمت والا ہے ۔‘(الروم: 27/30)
◆فرعون کا جادوگروں کے ذریعے مقابلے کا چیلنج:
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’ہم نے اسے اپنی سب نشانیاں دکھا دیں پھر بھی اس نے جھٹلایا اور انکار کر دیا۔ کہنے لگا: اے موسیٰ ! کیا تو اس لیے آیا ہے کہ ہمیں اپنے جادو کے زور سے ہمارے ملک سے باہر نکال دے۔ (اچھا) ہم بھی تیرے مقابلے میں اس جیسا جادو ضرور لائیں گے، پس تو ہمارے اور اپنے درمیان ایک وعدے کا وقت مقرر کر لے کہ نہ ہم اس کی خلاف ورزی کریں اور نہ تو ، صاف میدان میں مقابلہ ہو ۔ موسیٰ نے جواب دیا: زینت اور جشن کے دن کا وعدہ ہے اور یہ کہ لوگ دن چڑھے جمع ہو جائیں ۔‘‘(طہ : 56/20-59)
اللہ تعالی فرعون کی بدنریبی ، جہالت اور حماقت کا ذکر کرتے ہوۓ فرماتا ہے کہ اس نے اللہ کی آیات کو جھٹلایا اور تکبر کی وجہ سے ان کو ماننے سے انکار کیا اور موسیٰ علیہ السلام سے کہا: تو نے جو معجزے پیش کیے ہیں یہ جادو کے ہتھکنڈے ہیں۔ایسے شعبدوں کے ساتھ ہم بھی تیرا مقابلہ کر سکتے ہیں ۔ پھر موسیٰ علیہ السلام سے مطالبہ کیا کہ آپ ایک دن مقابلے کا وقت مقرر کر لیں ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام خود بھی یہی چاہتے تھے کہ سب لوگوں کے سامنے اللہ کی آیات، معجزات اور دلائل و براہین ظاہر کر میں اس لیے آپ نے فرمایا: ’’زینت اور جشن کے دن کا وعدہ ہے ۔‘‘ یہ ان کے ایک تہوار کا دن تھا جس میں وہ جمع ہوتے (میلہ لگاتے اور خوشی مناتے تھے۔ ’’اور یہ کہ لوگ دن چڑھے جمع ہو جائیں ۔ ضحی سے مراد دن کے شروع کا وہ وقت ہے جب دھوپ خوب نکل آۓ ۔ آپ نے یہ وقت اس لیے پسند فرمایا کہ حق خوب واضح اور ظاہر ہو جاۓ ۔ آپ نے رات کے اندھیرے کا وقت منتخب نہیں فرمایا بلکہ یہ مطالبہ فرمایا کہ مقابلہ دن دہاڑے سرعام ہونا چاہیے کیونکہ آپ کو رب کی طرف سے علم وبصیرت کی بنیاد پر یقین تھا کہ اللہ تعالی اپنے دین کو اور حق کو سر بلند کرے گا خواہ قبطی کا فرایڑی چوٹی کا زور لگالیں۔
 موسیٰ علیہ السلام اور جادوگر آمنے سامنے:-
 فرعون نے ملک بھر سے جادوگر جمع کیے انہیں انعامات کا لالچ دیا اور مقررہ دن موسیٰ علیہ السلام کا مقابلہ کرنے کے لیے میدان میں لے آیا۔ ارشاد باری تعالی ہے:
پھر فرعون لوٹ گیا اور اپنے ہتھکنڈے جمع کیے پھر آ گیا۔ موسیٰ نے ان سے کہا: تمہاری شامت آ چکی ، اللہ تعالی پر جھوٹ اور افترا نہ باندھو کہ وہ تمہیں کسی عذاب سے ملیامیٹ کر دے۔ ( یادرکھو!) وہ کبھی کامیاب نہ ہوگا، جس نے جھوٹی بات گھڑی۔ پس یہ لوگ آپس کے مشوروں میں مختلف راۓ ہو گئے اور چپ کر چپکے چپکے مشورہ کرنے لگے ۔ اور کہنے لگے: یہ دونوں محض جادوگر ہیں اور ان کا پختہ ارادہ ہے کہ اپنے جادو کے زور سے تمہیں تمہارے ملک سے نکال باہر کریں اور تمہارے بہترین مذہب کو برباد کریں تم بھی اپنا کوئی داؤ اٹھا نہ رکھو، پھر صف بندی کر کے آؤ، جو آ ج غالب آ گیا وہی بازی لے گیا۔‘‘ (طہ: 60/20-64)
حوالہ: قرآن و احادیث صحیحہ کی روشنی میں
ماخوذ ازالبدایہ والنہایہ
تالیف / امام ابوالفداءابن کثیرالدمشقی رحمتہ علیہ
جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
طالب دعا ء
ڈاکٹر عبد العلیم خان
adulnoorkhan@gmail.com

   8
0 Comments